Tuesday, 4 October 2016

کیا آسانی چاہتے ہو؟

کیا آسانی چاہتے ہو؟




۔۔۔۔۔تحریر :محمداسمٰعیل بدایونی 

بندو بابا کا اپنا ایک مزاج تھا۔۔۔۔سادے کپڑوں میں موجود،سر پر سادی سے ہرے رنگ کی ٹوپی ۔۔۔۔۔نہ کوئی جبہ نہ دستاد،نیوی سے ریٹائر تھے  لیاقت مارکیٹ ملیر میں رنگ اور تالے کی دکان تھی۔
بندو بابا  ! بہت تھک گیا ہوں زندگی بہت تھکا دینے والی ہے 
کیا آسانی چاہتے ہو؟ بندو با با نے مجھ سے پوچھا 
کون شخص ہو گا جو آسانی کو پسند نہیں کرے گا ۔۔۔۔
تو خرید لو  آسانیاں ۔۔۔۔۔
بابا جی  بھلا  آسانیاں بھی خریدی جا سکتیں ہیں ؟
ہاں آسانیاں خریدی جاتی ہیں ۔
مگر کیسے ؟۔۔۔یہ کہا ں ملتی ہے ؟۔۔۔ اس کی قیمت کیا ہے ؟۔۔۔۔ کون اس کو بیچتا ہے ؟
بابا جی میری بات سُن کر مسکرا دئیے 
ایک بات بتاؤ ! کیا پاکستانی روپیہ دبئی میں چلتا ہے ؟
نہیں 
یعنی اگر تمہیں دبئی میں کوئی چیز خریدنی ہو تو تم کو وہاں کی کرنسی میں لینا ہو گی ؟
جی بالکل ایسا ہی ہے ۔
آسانیاں خریدنے کے لیے ایک کرنسی ہے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسی کرنسی ؟میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا 
آسانی ،آسانی سے خریدی جاتی ہے 
آسانیاں تقسیم کرو ۔۔۔۔۔۔آسانیاں بانٹوں ۔۔۔تمہارے اکاؤنٹ میں آسانیاں آنے لگیں گی ۔۔۔۔۔۔۔
آسانیاں کیسے تقسیم کروں بابا جی ! میں نے پریشان ہوتے ہوئے کہا ۔
آسانیاں تو آسانیاں ہیں  بس آج سے طے کر لو تم نے آسانیاں تقسیم کرنی ہیں۔۔۔۔۔خلقِ خدا کی خدمت کرنی ہے  لوگوں کے کام آنا ہے 
مگر کیسے کروں ؟ میں کرنا تو چاہتا ہوں مگر کیسے کروں ؟
بندو بابا کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی  ۔
بیٹا یہ مشکل کام تھوڑی ہے مثال کے طور پر تم ٹاور جا رہے ہو   کسی اسٹاپ پر گاڑی روک لو اور دیکھو ٹاور کی بس میں کون ضعیف آدمی سوار ہو رہا ہے اس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو میں آپ کو آپ کی منزل پر پہنچا دیتا ہوں  پھر اسے گاڑی میں بٹھا کر اس کی منزل پر پہنچا دو 
تم اگر ڈاکٹر ہو تو دن میں دس مریض اللہ کے  لیے بھی دیکھ لیا کرو
اللہ کے مریض ؟
ہاں وہ لوگ  جو تمہیں تمہاری فیس نہیں دے سکتے ان کو ،اور اللہ کی رضا کے لیے ان مریضوں کو دوائی بھی اپنے پاس سے دلا دیا کرو ۔۔۔۔آسانی یوں بھی تقسیم ہوتی ہے ۔
تم اگر استاد ہو تو کسی طالب علم کی فیس بھر دیاکرو  اس کو مفت  ٹیوشن پڑھا دیاکرو   مگر اللہ کی رضا کے لیے ۔۔۔۔
تم اگر دودھ فروش ہو تو کسی غریب کے گھر بھی مفت دودھ پہنچا دیا کرو جتنا تم سے ہو سکے ۔۔۔۔۔۔
آسانیاں بانٹنے کے لیے تمہیں کسی فرم کا ڈائریکٹر ہونا ہی ضروری نہیں تم کلرک ہو تو  بھی لوگو ں کے کام  آسکتے ہو ان کا کام کر سکتے ہو 
اپنے گھر کے لیے پھل فروٹ لائے محلے کے کسی غریب گھر میں بھی یہ کہہ کر پہنچا دئیے ہمارے باغ کا پھل آیا ہے اس لیے آپ کو بھیجا ہے۔اس کے بچے بھی پھل کھا لیں گے ۔
کبھی کسی خیراتی  یا سرکاری ہسپتال کے باہر کھڑے ہو جاؤ اور دیکھو کوئی ضرورت مند ہے تو اس کو ٹیکسی یا رکشہ کرادو یا اس کو اس کے گھرچھوڑآؤ تم دیکھو تو سہی آسانیاں تقسیم کرکے قدرت تمہارے اکاؤنٹ میں آسانیوں کا منافع کیسے جمع کرائے گی۔
 تمہاری وجہ سے کسی بھی شخص کے لیے کوئی بھی آسانی ہو سکتی ہے تو ضرور کرو 
ہمارے ایک جاننے والے پروفیسر تھے  نئے نئے لیکچرار لگے تھے لیکن جب بھی کمیشن میں اشتہار آتا لوگوں کو فارم لا کر دیتے ان کو جا کر جمع کرواتے اور کوشش کرتے کہ ان میں سے کسی کا ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔وقت گزرتا رہا وہ آسانیاں تقسیم کرتے رہے ۔
پھر جب ان کے بچے جوان ہو ئے تو انہوں نے چاہا ان کے بچے بھی اسی  پروفیشن کو اپنائیں  تو قدرت نے ان کےبچوں کو بھی پروفیسر بنا دیا  یہ آسانیاں جو وہ تقسیم کرتے رہے  قدرت نے منافع کی شکل میں ان کو واپس لوٹا دیں 
آسانیاں تقسیم کرو۔۔۔۔آسانیاں منافع سمیت واپس ملیں گی ۔۔۔۔۔بندو بابا  نے  مسکراتے ہوئے کہا ۔

No comments:

Post a Comment